یقین کا سفر
پرانی حویلی کے قریب، شہر کے پُرسکون محلے میں زینب رہتی تھی۔ ایک سادہ سی لڑکی جس کی آنکھوں میں خوابوں کی دنیا بستی تھی۔ اس کی پرورش اس کی دادی نے کی تھی جو اکثر اسے نصیحت کرتیں، “بیٹا، اس دنیا میں سب پر بھروسہ مت کرنا، کچھ چہرے حقیقت سے مختلف ہوتے ہیں۔” زینب اس بات کو ہمیشہ مسکرا کر ٹال دیتی، مگر اسے کیا معلوم تھا کہ جلد ہی یہ نصیحت اس کی زندگی کا سب سے بڑا سبق بننے والی ہے۔
ایک دن محلے میں ایک نیا خاندان شفٹ ہوا۔ ان کے ساتھ آیا ان کا بیٹا دانش۔ لمبا قد، گہری آنکھیں اور دلکش مسکراہٹ۔ دانش نے پہلی ہی ملاقات میں زینب پر گہرا اثر چھوڑا۔ وہ جب بھی اسے دیکھتی، دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔ مگر زینب اپنے جذبات دل میں چھپائے رکھتی، کیونکہ اس کی دادی نے اسے ہمیشہ سکھایا تھا کہ عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
دانش، بظاہر ایک سلجھا ہوا اور نیک دل انسان لگتا تھا۔ محلے کے بزرگ اس کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے۔ زینب کی دادی بھی اس کی خوبیاں گنواتیں، “کتنا مودب لڑکا ہے، اپنے والدین کی کتنی عزت کرتا ہے۔” زینب بس دل ہی دل میں مسکرا دیتی۔
ایک دن محلے میں شادی کا فنکشن تھا۔ زینب بھی اپنی دادی کے ساتھ شریک ہوئی۔ وہاں پہلی بار اس کی براہِ راست ملاقات دانش سے ہوئی۔ دانش نے بڑے احترام سے سلام کیا، اور زینب سے گفتگو کرنے لگا۔ اس کی باتوں میں سچائی اور خلوص جھلک رہا تھا۔ زینب بے اختیار اس کی باتوں میں کھو گئی۔
چند دن بعد، زینب کی دادی کی طبیعت بگڑ گئی۔ دانش نے نہ صرف ہسپتال لے جانے میں مدد کی، بلکہ وہاں بھی ساتھ رہا۔ زینب اس کے خلوص اور ہمدردی سے بہت متاثر ہوئی۔ اس کے دل میں امید جاگ اٹھی کہ شاید یہ رشتہ آگے بڑھ سکتا ہے۔
مگر کہانی میں پہلا موڑ تب آیا جب زینب کو ایک انجان نمبر سے پیغام موصول ہوا:
“دانش وہ نہیں ہے جو تم سمجھتی ہو، اس کے ارادے نیک نہیں ہیں۔ ہوشیار رہنا!”
زینب حیران رہ گئی۔ پہلے تو اس نے اس پیغام کو نظرانداز کیا، مگر جب بار بار مختلف نمبروں سے یہی پیغام آنے لگا، تو اس کے دل میں شک پیدا ہونے لگا۔ اس نے سوچا کہ شاید یہ کوئی شرارت ہے، مگر دل کے کسی کونے میں خوف نے جگہ بنا لی تھی۔
ایک رات، زینب چھت پر ٹہل رہی تھی جب اس نے دانش کو کسی سے فون پر بات کرتے سنا:
“ہاں، میں نے اس کا اعتماد جیت لیا ہے۔ جیسے ہی وقت آئے گا، اپنا مقصد پورا کرکے یہاں سے نکل جاؤں گا۔”
زینب کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ کیا واقعی دانش کا ارادہ برا تھا؟ کیا اس نے جو خلوص دیکھا، وہ سب ایک جھوٹ تھا؟
اگلے دن، زینب نے ہمت کر کے دانش سے اس کے ارادے کے بارے میں پوچھا۔ دانش کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آئی، مگر وہ فوراً سنبھل گیا اور مسکرا کر بولا، “زینب، تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں ایسا نہیں ہوں۔”
مگر زینب کے دل میں شک کا بیج بویا جا چکا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ حقیقت کا پتہ لگا کر ہی رہے گی۔
ایک رات، زینب نے دانش کا پیچھا کیا۔ وہ اس پرانی حویلی میں داخل ہوا جو عرصے سے ویران پڑی تھی۔ زینب نے چپکے سے کھڑکی سے جھانکا تو دیکھا کہ دانش کسی سے مل رہا تھا۔
“ہاں، زینب کا اعتماد مکمل طور پر حاصل کر لیا ہے۔ جیسے ہی تم کہو گے، میں اپنا کام کر دوں گا۔”
زینب کا دل دہل گیا۔ اس نے فوراً وہاں سے بھاگ کر دادی کو سب کچھ بتایا۔ دادی نے حیرت سے کہا، “بیٹا، میں نے تمہیں پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ سب چہرے حقیقت نہیں ہوتے۔”
زینب کی دادی نے محلے کے بزرگوں کو اعتماد میں لے کر پولیس کو اطلاع دی۔ اگلی رات جب دانش اسی حویلی میں اپنے ساتھی سے ملنے آیا، تو پولیس نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔
تحقیقات سے پتا چلا کہ دانش ایک فراڈیا تھا جو لوگوں کا اعتماد جیت کر انہیں نقصان پہنچاتا تھا۔ اس کا اصل مقصد زینب کے گھر کے کاغذات ہتھیانا تھا کیونکہ اس کی حویلی کی زمین کی قیمت کروڑوں میں تھی۔
زینب کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ اسے اپنی محبت کے ساتھ ساتھ اپنے اعتماد کے ٹوٹنے کا بھی غم تھا۔ مگر اس نے ایک قیمتی سبق سیکھا—یقین ہمیشہ سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے، کیونکہ ہر مسکراتا چہرہ دل کا صاف نہیں ہوتا۔
اس کے بعد زینب نے اپنی زندگی کو نئے سرے سے جینے کا فیصلہ کیا، مگر دل میں ہمیشہ کے لیے ایک زخم چھوڑ گیا جو دانش کی بے وفائی نے دیا تھا۔