حورین ایک حسین، معصوم اور خاموش طبیعت کی لڑکی تھی۔ اس کے والدین کے انتقال کے بعد، وہ اپنے چچا کے گھر رہنے لگی۔ وہاں اس کا زیادہ تر سامنا شائستہ بیگم سے ہوتا جو بظاہر نہایت شفیق اور مہربان خاتون تھیں۔ مگر ان کی مسکراہٹ میں ایک عجیب سی پراسراریت تھی، جو حورین کو ہمیشہ بےچین کر دیتی تھی۔
شائستہ بیگم کے تین بیٹے تھے جو زیادہ تر شہر میں رہتے تھے اور کبھی کبھار ہی گھر آتے۔ حورین کو اس بڑے گھر میں اکثر تنہائی محسوس ہوتی، مگر وہ شائستہ بیگم کے خوف کی وجہ سے کسی سے بات بھی نہیں کر پاتی تھی۔
ایک رات جب بارش زور و شور سے برس رہی تھی، حورین کی آنکھ کھلی تو اسے لگا کہ جیسے کوئی سرگوشی کر رہا ہو۔ اس نے کان لگا کر سنا تو آہستہ آہستہ قدموں کی چاپ سنائی دی۔ دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اس نے کمبل میں خود کو چھپانے کی کوشش کی مگر تجسس نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ دیکھے آخر یہ آوازیں کہاں سے آرہی ہیں۔
وہ آہستگی سے کمرے سے باہر نکلی اور ہلکی روشنی کی طرف بڑھنے لگی۔ روشنی تہہ خانے کے دروازے کے نیچے سے آرہی تھی، جو ہمیشہ مقفل رہتا تھا۔ آج وہ دروازہ آدھا کھلا تھا۔ حورین نے دبے قدموں سے جھانکا تو وہ منظر دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے۔
شائستہ بیگم سفید لباس میں ملبوس، ہاتھ میں جلتی ہوئی موم بتی لئے ایک پرانے آئینے کے سامنے کچھ پڑھ رہی تھیں۔ ان کی آنکھیں سرخ اور چہرہ بےحد خوفناک لگ رہا تھا۔ ان کے اردگرد کچھ پراسرار نشانات بنے ہوئے تھے جن سے دھواں اٹھ رہا تھا۔
حورین کے منہ سے بےاختیار چیخ نکل گئی۔ شائستہ بیگم نے چونک کر پیچھے دیکھا، ان کی آنکھوں میں غضب کی آگ تھی۔ “تم یہاں کیا کر رہی ہو؟” ان کی آواز میں سفاکی تھی۔
حورین کے قدم کانپنے لگے۔ “م… میں… کچھ نہیں… بس آوازیں سن کر… دیکھنے آئی تھی۔”
شائستہ بیگم کے ہونٹوں پر غریب سی مسکراہٹ پھیل گئی، “یہ سب کو تو نہیں دیکھنا چاہیے تھا۔”
انہوں نے موم بتی کو زور سے بجھا دیا، اور تہہ خانے میں مکمل اندھیرا چھا گیا۔
تاریکی میں شائستہ بیگم کی سرگوشیاں گونجنے لگیں، جیسے وہ کوئی جادوئی منتر پڑھ رہی ہوں۔ اچانک حورین کو اپنے اردگرد سایوں کا احساس ہوا جو اس کے قریب آرہے تھے۔
حورین نے گھبرا کر دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر وہ مضبوطی سے بند تھا۔ سایے اب اس کے بالکل قریب تھے، ان کے چہرے دھندلے اور آنکھیں سرخ تھیں۔ وہ خوف سے لرزتی ہوئی چیخنے لگی، “چھوڑ دو مجھے! خدا کے واسطے چھوڑ دو!”
مگر اس کی چیخیں تہہ خانے کی دیواروں میں گم ہوگئیں۔
اچانک ایک زور دار آواز سے دروازہ کھل گیا اور شائستہ بیگم کا سب سے بڑا بیٹا فراز حورین کو باہر نکال لایا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت اور غصہ تھا۔
“امی! یہ تو کیا کر رہی ہو؟”
شائستہ بیگم کی آنکھوں میں وحشت تھی “یہ لڑکی ہمارے رازوں کو جان چکی ہے، اسے زندہ نہیں چھوڑ سکتی!”
فراز نے غصے سے کہا، “یہ آپ کی بہو بننے والی ہے، اور آپ اسے مار ڈالیں گی؟”
شائستہ بیگم کے چہرے پر الجھن کے آثار تھے، پھر وہ بےہوش ہو کر گر گئیں۔ فراز نے حورین کو سہارا دیا اور کمرے کی طرف لے گیا۔
“حورین، مجھے معلوم نہیں تھا کہ امی اس حد تک چلی جائیں گی۔ وہ جادو ٹونے میں مبتلا ہیں اور اب ان کی حالت خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔”
حورین کے آنسو جاری تھے، “مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے، میں یہاں نہیں رہنا چاہتی۔”
فراز نے تسلی دی، “تمہیں اب کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔”
اگلی صبح، شائستہ بیگم کو روحانی علاج کے پاس لے جایا گیا۔ ان کی حالت ناقابل بیان تھی، اور وہ مسلسل عجیب و غریب باتیں کر رہی تھیں۔ معالج نے بتایا کہ ان پر کسی پرانے آسیب کا سایہ ہے، جس سے نجات کے لیے خاص علاج کی ضرورت ہے۔
حورین کو اب بھی اس رات کے مناظر یاد تھے۔ اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ اس گھر میں کبھی تنہا نہیں رہے گی۔ مگر ایک سوال اس کے دل میں ہمیشہ رہا:
“کیا شائستہ بیگم واقعی آسیب زدہ تھیں، یا ان کے اندر چھپی ہوئی خوفناک حقیقت کچھ اور تھی؟”