بھابھی کا خوفناک راز: ایک سسپنس سے بھری کہانی
رات کے وقت ہمارے گھر میں عجیب سی خاموشی چھائی رہتی تھی، لیکن کچھ چیزیں ایسی تھیں جو میرے دماغ میں ہلچل مچا دیتی تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ عجیب بھابھی کی عادت تھی۔
وہ ہر روز تازہ مچھلی منگواتی، مگر اسے پکانے کے بجائے سیدھا اپنے کمرے میں لے جاتی۔ میں نے کئی بار سوچا کہ آخر بھابھی اس مچھلی کا کرتی کیا ہے؟ وہ اتنی بڑی مقدار میں مچھلی لیتی، مگر کبھی کسی کو کھاتے نہیں دیکھا۔ جب بھی وہ اپنے کمرے سے باہر آتی، اس کے کپڑے مٹی میں بھرے ہوتے اور چہرے پر ایک عجیب سا اطمینان ہوتا۔ جب میں پوچھتی، تو بس مسکرا کر کہتی: “مچھلی بہت مزیدار تھی!”
مجھے اس جواب سے مزید الجھن ہوتی۔ آخر یہ کیا معاملہ تھا؟
تجسس کی آگ
میری بے چینی بڑھنے لگی، دل میں ایک خوف سا بس گیا کہ شاید بھابھی کے ساتھ کچھ عجیب ہو رہا ہے۔ میں نے کئی بار سوچا کہ اس راز سے پردہ اٹھاؤں، مگر ڈر لگتا تھا۔ کہیں کوئی بھیانک حقیقت نہ سامنے آ جائے۔
مگر پھر ایک دن، میں نے فیصلہ کر لیا۔
راز جاننے کی کوشش
رات کا وقت تھا، چاندنی کی روشنی کھڑکی سے اندر آ رہی تھی۔ بھابھی ہمیشہ رات کے وقت مچھلی لاتی اور اپنے کمرے میں بند ہو جاتی۔ میں نے ہمت کی اور بھابھی کے کمرے میں چھپنے کا منصوبہ بنایا۔
جیسے ہی بھابھی نے کمرہ بند کیا، میں نے جلدی سے الماری کے پیچھے جگہ بنالی اور سانس روک کر کھڑی ہوگئی۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
کمرے میں مدھم روشنی تھی، بھابھی نے میز پر رکھی مچھلی کو غور سے دیکھا، پھر الماری کے پاس آئی اور نیچے سے ایک چھوٹا سا لکڑی کا تختہ ہٹایا۔ میرا دماغ سن ہو گیا جب میں نے دیکھا کہ وہاں ایک خفیہ تہہ خانہ تھا۔
حقیقت جو سانسیں روک دے
بھابھی نے آہستہ سے مچھلی کو تہہ خانے میں اتارا، اور جیسے ہی اس نے مٹی ہٹائی، مجھے کسی چیز کے حرکت کرنے کی آواز آئی۔
میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ زمین کے نیچے کچھ موجود تھا۔
اچانک، ایک ہڈیوں سے بھرا ہاتھ باہر نکلا اور مچھلی کو اپنی گرفت میں لے لیا! میں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تاکہ چیخ نہ نکل جائے۔
یہ کیا تھا؟ کوئی جن، کوئی مخلوق، یا کوئی اور بھیانک چیز؟
بے رحم سچ
بھابھی کی آواز آئی، وہ مدھم لہجے میں بولی:
“تمہیں بھوک لگی ہوگی… آج تمہیں مزید ملے گا!”
میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔ کیا بھابھی کسی ایسی مخلوق کو کھانا کھلا رہی تھی جو عام دنیا میں موجود نہیں؟
مجھے لگا کہ اگر میں یہاں سے نہ نکلی تو میں بھی اسی چیز کا اگلا شکار بن سکتی ہوں۔ میں نے احتیاط سے اپنی جگہ بدلی، مگر میرا پاؤں کسی چیز سے ٹکرا گیا۔
خوفناک انکشاف
بھابھی فوراً پلٹی۔ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی جب میں نے بھابھی کی آنکھوں میں کچھ عجیب دیکھا۔ وہ عام آنکھیں نہیں تھیں، وہ گہری سیاہ اور روشنی کو جذب کر لینے والی لگ رہی تھیں۔
“تم یہاں کیا کر رہی ہو؟” بھابھی نے دھیمی مگر سخت آواز میں پوچھا۔ میں الفاظ نہ نکال سکی۔
“تم نے دیکھ لیا نا؟” بھابھی نے سرد لہجے میں کہا۔ میری ٹانگیں کانپنے لگیں۔
ایک صدی پرانا راز
“یہ سب کیا ہے؟” میں نے لرزتی آواز میں پوچھا۔
بھابھی نے ایک گہری سانس لی، جیسے کچھ بڑا راز کھولنے والی ہو۔ “یہ وہی ہے جو تمہاری نانی کی غلطی کا نتیجہ ہے۔ یہ چیز… برسوں پہلے بیدار ہوئی تھی، اور اب اسے زندہ رکھنے کے لیے کھانا دینا پڑتا ہے۔”
“یہ چیز کون ہے؟” میں نے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
بھابھی نے آنکھیں بند کیں، جیسے کوئی پرانا خوف یاد آ گیا ہو۔ “یہ انسان نہیں ہے، مگر کبھی تھا… یہ ہماری نسل کے ساتھ جُڑا ہے۔ اگر اسے کھانا نہ دیا جائے، تو یہ ہمیں کھا جائے گا۔”
فرار یا انجام؟
میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ کیا میں خواب دیکھ رہی تھی؟ یہ سب حقیقت کیسے ہو سکتا تھا؟ میں نے ایک قدم پیچھے ہٹایا، مگر بھابھی نے مجھے روک لیا۔
“تمہیں کسی کو کچھ نہیں بتانا چاہیے، ورنہ یہ تمہارے پیچھے بھی آ سکتا ہے!” بھابھی نے سخت لہجے میں کہا۔
میرے کان سنسناہٹ سے بھر گئے۔ کیا میں اب اس راز میں پھنس چکی تھی؟
میرے پاس دو راستے تھے: یا تو میں چپ رہوں، یا پھر اس راز کو دنیا کے سامنے لے آؤں، چاہے اس کا انجام کچھ بھی ہو۔
آخری فیصلہ
میں نے دروازے کی طرف دوڑ لگائی۔ بھابھی نے مجھے روکنے کی کوشش کی، مگر میں نے پورے زور سے دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔
میرے کانوں میں اب بھی بھابھی کے آخری الفاظ گونج رہے تھے:
“اگر تم نے یہ راز کسی کو بتایا… تو تمہیں بھی کھانا پڑے گا!”