پرانے زمانے کی بات ہے، ایک بادشاہ کے دربار میں ایک قیدی کو سزائے موت سنائی گئی۔ اس کا جرم سنگین تھا، اور صبح ہوتے ہی اسے پھانسی دی جانی تھی۔ مگر بادشاہ، جو اپنی عقل اور تجسس کے لئے مشہور تھا، نے قیدی کو ایک غیر معمولی پیشکش کی۔
“میں تمہاری جان بخش دوں گا،” بادشاہ نے گرجدار آواز میں کہا، “اگر تم میرے ایک سوال کا صحیح جواب دے سکو۔ اگر جواب غلط ہوا، تو تمہیں سزا ضرور ملے گی۔”
قیدی کی آنکھوں میں امید کی کرن جاگ اٹھی۔ “سوال کیا ہے، حضور؟”
بادشاہ نے غور سے اس کی طرف دیکھا اور آہستگی سے بولا، “عورت آخر چاہتی کیا ہے؟”
دربار میں سناٹا چھا گیا۔ یہ سوال اتنا پرانا تھا جتنا خود وقت، اور آج تک کسی مرد نے اس کا درست جواب نہیں دیا تھا۔ قیدی کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ وہ کیسے جان سکتا تھا کہ اس پیچیدہ معمہ کا جواب کیا ہے؟
“حضور! کچھ مہلت دیجیے تاکہ میں اس سوال کا جواب تلاش کر سکوں،” قیدی نے التجا کی۔
بادشاہ نے اس کی ہمت اور عزم کو دیکھ کر کہا، “تمہیں ایک سال کی مہلت دی جاتی ہے۔ اگر ایک سال بعد تم خالی ہاتھ لوٹے، تو سزا تمہاری منتظر ہوگی۔”
جواب کی تلاش
قیدی نے پورے ملک کا سفر کیا، ہر عورت سے یہی سوال پوچھا۔ جوان اور بوڑھی، امیر اور غریب، عقلمند اور ناسمجھ—ہر کسی کا جواب مختلف تھا۔ کسی نے دولت کو سب کچھ قرار دیا، کسی نے حسن کو، کسی نے محبت کی طلب کی، تو کسی نے اقتدار کی خواہش ظاہر کی۔ مگر کوئی بھی جواب مکمل نہیں لگتا تھا۔
مہینے گزرتے گئے، اور اس کی امیدیں دم توڑنے لگیں۔ پھر ایک دن، ایک بزرگ نے اسے سرگوشی میں بتایا، “گھنے جنگل میں ایک چڑیل رہتی ہے۔ وہ ہر سوال کا جواب جانتی ہے۔ مگر خبردار! اس کی مدد کی قیمت بہت بڑی ہوتی ہے۔”
کوئی اور راستہ نہ پا کر، قیدی نے اُس جنگل کا رخ کیا۔ درخت سرگوشیاں کرتے، ہوائیں سسکیاں بھرتیں، اور سائے اس کا پیچھا کرتے۔ آخر کار وہ ایک خستہ حال جھونپڑی تک پہنچا جو بیلوں اور کائی سے ڈھکی ہوئی تھی۔
اس نے دروازہ کھٹکھٹایا، جو چرچراتے ہوئے کھل گیا۔ ایک جھکی ہوئی، بدصورت عورت سامنے آئی۔ اس کا چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا، آنکھیں بےنور، اور بال بکھرے ہوئے تھے۔ یہ وہی خوفناک چڑیل تھی جس کے قصے سن کر بچے ڈر کے مارے روتے تھے۔
چڑیل کی شرط
“مجھے معلوم ہے کہ تم کیوں آئے ہو،” چڑیل نے کرخت آواز میں کہا جو گویا کانچ ٹوٹنے کی آواز کی طرح گونج رہی تھی۔ “تمہیں بادشاہ کے سوال کا جواب چاہیے۔”
“ہاں!” قیدی نے کپکپاتی آواز میں جواب دیا۔ “کیا تم میری مدد کرو گی؟”
چڑیل کے ہونٹوں پر مکروہ مسکراہٹ آئی۔ “ہاں، مگر ایک شرط پر۔”
قیدی کا دل ڈوبنے لگا۔ “کون سی شرط؟”
چڑیل اس کے قریب آئی، اس کی سرد سانس نے قیدی کو کانپنے پر مجبور کر دیا۔ “تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہوگی۔”
یہ سن کر قیدی کے جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ چڑیل اتنی بدصورت تھی کہ اسے دیکھ کر روح کانپ اٹھے۔ اس کے ہاتھوں میں پنجے، کمر ٹیڑھی، اور وجود سے نفرت ٹپک رہی تھی۔ مگر اس کے پاس کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔
“اگر میں انکار کروں؟” قیدی نے لرزتی آواز میں پوچھا۔
چڑیل کی آنکھوں میں شیطانی چمک تھی۔ “تو تم کبھی جواب نہیں پا سکو گے، اور تمہاری موت یقینی ہے۔”
مشکل فیصلہ
دنوں تک قیدی کشمکش میں مبتلا رہا۔ کیا اس کی جان اتنی قیمتی تھی کہ وہ اس بدصورت چڑیل سے شادی کرے؟ آخر کار، جینے کی خواہش خوف پر غالب آگئی۔
“میں قبول کرتا ہوں،” اس نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا۔ “میں تم سے شادی کروں گا۔”
چڑیل کی شیطانی ہنسی جنگل میں گونج اٹھی۔ “عقل مندی سے فیصلہ کیا۔ تمہارے سوال کا جواب بہت سادہ ہے: عورت اپنی مرضی کی مالک بننا چاہتی ہے۔”
قیدی دنگ رہ گیا۔ جواب اتنا واضح تھا مگر اتنا گہرا بھی۔ اس نے چڑیل کا شکریہ ادا کیا اور بادشاہ کے دربار میں واپس پہنچا۔
رہائی اور انعام
بادشاہ کے سامنے قیدی نے پورے اعتماد سے کہا، “عورت اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنا چاہتی ہے۔”
بادشاہ حیرت میں ڈوب گیا۔ “تم نے سب سے پیچیدہ سوال کا جواب دے دیا! تمہیں معاف کیا جاتا ہے۔”
مگر قیدی کے دل پر بوجھ تھا۔ اسے اپنی شادی کا وعدہ یاد تھا۔
شادی اور راز کا کھلنا
شادی کی رات جب وہ کمرے میں داخل ہوا، تو ایک انتہائی حسین عورت اس کا انتظار کر رہی تھی۔
“تم… تم کون ہو؟” قیدی نے حیرانی سے پوچھا۔
“میں وہی چڑیل ہوں،” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ “مجھے ایک لعنت نے بدصورت بنا رکھا تھا، اور اس لعنت کو صرف ایک شرط پر توڑا جا سکتا تھا۔”
“کون سی شرط؟”
“مجھے اپنی مرضی کا اختیار ملے۔”
قیدی نے سوچتے ہوئے کہا، “یہ فیصلہ تمہارا ہے۔ تمہاری زندگی ہے، تمہارا اختیار ہونا چاہیے۔”
چڑیل کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے۔ “تم نے مجھے میری مرضی دی، اور اس کے ساتھ میری اصل شکل بھی لوٹا دی۔”
اور یوں انہوں نے خوشی خوشی زندگی گزاری۔
سبق:
عورت کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ اسے اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ملے