رات کی سیاہی گہری ہوتی جا رہی تھی۔ ہوا میں سردی اور پراسراریت کا احساس تھا۔ جنگل کے اس کنارے پر واقع وہ پرانا محل ایک عرصے سے ویران تھا۔ کہتے ہیں وہاں کوئی محبت کی کہانی ادھوری رہ گئی تھی، اور اس کہانی کے کردار آج بھی اس محل میں موجود ہیں۔
علی کو ان کہانیوں پر یقین نہیں تھا۔ وہ ایک بہادر اور نڈر نوجوان تھا۔ اسے مہم جوئی کا شوق تھا، اور جب اس نے سنا کہ اس محل میں کوئی نہیں جاتا، تو اس کے دل میں تجسس پیدا ہوا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس محل میں جا کر خود دیکھے گا کہ آخر اس میں ایسا کیا راز ہے۔
رات کے دس بجے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ محل کے باہر پہنچا۔ چاند کی ہلکی روشنی محل کو اور بھی خوفناک بنا رہی تھی۔ دوستوں نے اسے منع کیا، “علی، واپس چلتے ہیں۔ یہ جگہ اچھی نہیں لگ رہی۔”
مگر علی مسکرا کر بولا، “ڈرپوک مت بنو! یہ سب کہانیاں لوگوں نے خود بنائی ہیں۔ چلو، دیکھتے ہیں اندر کیا ہے۔”
محل کے اندر قدم رکھتے ہی ہوا کے جھونکے سے دروازہ زور سے بند ہوا۔ سب چونک گئے، مگر علی آگے بڑھتا رہا۔ محل کے بڑے ہال میں پہنچ کر اس نے مشعل جلائی۔ دیواروں پر پرانی تصویریں تھیں، جن میں ایک لڑکی کی تصویر سب سے نمایاں تھی۔ اس کی آنکھوں میں اداسی اور چہرے پر عجیب سی پراسرار مسکراہٹ تھی۔
علی نے تصویر کو غور سے دیکھا اور پوچھا، “یہ کون ہے؟”
اچانک ہوا میں سرگوشیاں سنائی دیں۔ جیسے کوئی آہستہ آہستہ کچھ کہہ رہا ہو۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا، مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ دوست خوفزدہ ہو کر باہر بھاگ گئے، مگر علی اکیلا کھڑا رہا۔
تصویر کے قریب پہنچ کر اس نے دیکھا کہ آنکھوں میں آنسو تھے۔ دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ اچانک تصویر سے آواز آئی، “کیا تمہیں میری محبت پر یقین ہے؟”
علی پیچھے ہٹا، “ک… کون ہو تم؟”
اچانک ہوا کا جھونکا آیا اور کمرے میں ٹھنڈک بڑھ گئی۔ تصویر میں موجود لڑکی باہر آ گئی۔ سفید لباس میں ملبوس، بال کھلے، اور چہرے پر اداسی۔
“میرا نام زینب ہے۔ میں اس محل کی شہزادی تھی۔ میری محبت ادھوری رہ گئی تھی، اور اب تک اسی محل میں قید ہوں۔”
علی حیرت سے بولا، “کیا تم… کیا تم بھوت ہو؟”
زینب کی آنکھوں میں اداسی اور غصے کی جھلک تھی۔ “محبت کرنے والے مر کر بھی نہیں مرتے۔ میں اس محل میں اپنے محبوب کا انتظار کر رہی ہوں، مگر اس نے دھوکہ دیا۔ کیا تم میری محبت کو مکمل کر سکتے ہو؟”
علی نے خوفزدہ ہو کر کہا، “م… میں… میں یہاں صرف تجسس میں آیا تھا۔”
زینب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی، “محبت بھی تجسس سے شروع ہوتی ہے۔ تمہیں یہاں آنے کے بعد اب واپسی کا راستہ نہیں ملے گا۔”
کمرے کے دروازے خودبخود بند ہو گئے۔ علی نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، مگر وہ بند تھا۔ زینب کے آنسو زمین پر گرے اور کمرے میں دھند چھا گئی۔
“مجھے میرے محبوب کی قسم دی گئی ہے۔ جو بھی اس محل میں آئے گا، وہ میرے انتظار کو ختم کرے گا۔”
علی چیخا، “نہیں! مجھے جانے دو! میں تمہیں نہیں جانتا!”
زینب کے چہرے پر اداسی بڑھ گئی، “محبت کو کبھی دھوکہ مت دینا، ورنہ اس کا انجام یہی ہوتا ہے۔”
کمرہ گھومنے لگا۔ علی نے خود کو زمین پر گرتے ہوئے محسوس کیا۔ زینب کے قہقہے کمرے میں گونجنے لگے۔
اچانک سب کچھ خاموش ہوگیا۔
صبح کے وقت جب لوگوں نے محل کا دروازہ کھولا، تو وہاں علی کی کوئی نشانی نہیں تھی۔ مگر تصویر میں ایک نیا چہرہ نظر آ رہا تھا—علی کا چہرہ، جس کی آنکھوں میں خوف اور چہرے پر پراسرار مسکراہٹ تھی۔
اب وہ بھی زینب کے ساتھ اس محل کا حصہ بن چکا تھا، ہمیشہ کے لیے…