پراسرار نذرانہ
میں ہمیشہ مافوق الفطرت تجربات کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار رہی تھی، لیکن جب سے میرا دیور ہر جمعرات کو دربار سے لنکر لا کر دینے لگا، تب سے کچھ بدلنے لگا۔ شروع میں، یہ صرف ایک عقیدت مند پیشکش تھی، ایک روحانی تعلق جو میرے خاندان کے لیے مقدس تھا۔ مگر جلد ہی، چیزیں عجیب ہونے لگیں۔
ہر جمعرات کی رات، جب میں لنکر کھاتی، تو میرے پیروں اور ٹانگوں میں ایک ناقابلِ برداشت درد پھیل جاتا۔ یہ کوئی عام تھکن نہ تھی؛ یوں لگتا جیسے کوئی ان دیکھی طاقت میرے اعضا کو جکڑ رہی ہو، میری توانائی چوس رہی ہو۔ درد ہفتہ بہ ہفتہ بڑھتا گیا، اور نہ کوئی دوا اثر کرتی، نہ آرام۔ میں نے اسے اپنی سستی سمجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی، مگر دل میں ایک انجانی دہشت بیٹھ چکی تھی۔
ایک خاص جمعرات، میرا دیور، راشد، معمول سے زیادہ دیر سے آیا۔ اس کا چہرہ زرد تھا، آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں، جیسے وہ کئی دنوں سے جاگ رہا ہو۔ اس نے مجھے لنکر پکڑایا، جو سفید کپڑے میں لپٹا تھا۔ اس سے ایک عجیب، باسی خوشبو آ رہی تھی۔ اس رات، میں نے فیصلہ کیا کہ میں لنکر نہیں کھاؤں گی۔ میں نے اسے اپنے سرہانے رکھ دیا اور نیند کی وادی میں چلی گئی۔
آدھی رات کو، ایک ٹھنڈی لہر میری ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی۔ ایک سایہ میرے اوپر جھکا ہوا تھا۔ میں حرکت کرنا چاہتی تھی، مگر میرا جسم جیسے مفلوج ہو چکا تھا۔ دروازہ چرچرا کر کھلا، اور راشد اندر داخل ہوا۔ مگر اس کی حرکات غیر فطری لگ رہی تھیں، جیسے وہ کسی اور کے قابو میں ہو۔ اس کی آنکھیں خالی، بے تاثر تھیں۔
اس نے بغیر کچھ کہے میرے کندھوں کو پکڑا اور مجھے آسانی سے اٹھا لیا، جیسے میں ہوا میں تیر رہی ہوں۔ خوف کی ایک لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔ میں چیخنا چاہتی تھی، مگر میری آواز کہیں گم ہو گئی۔ فضا میں بوجھل سی گھٹن تھی۔ راشد مجھے لے کر ہال وے سے گزرا اور پچھلے صحن میں لے آیا، جہاں مدھم روشنی میں کچھ سائے حرکت کر رہے تھے۔
جب میں نے غور کیا، تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے—کچھ دھندلی مخلوقات ایک چھوٹے سے الاؤ کے گرد بیٹھی سرگوشیوں میں کچھ پڑھ رہی تھیں۔ میں خوف سے کانپ اٹھی۔ راشد نے مجھے دائرے کے بیچ میں کھڑا کر دیا۔
“اس نے نہیں کھایا،” راشد نے سرد آواز میں کہا۔ تمام سائے خاموش ہو گئے۔
ایک لمبا، سیاہ لباس پہنے شخص آگے بڑھا۔ اس کا چہرہ چھپا ہوا تھا، مگر اس کی موجودگی کسی بوجھ کی طرح محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھایا، اور ایک ناقابلِ برداشت دباؤ میرے سینے پر محسوس ہوا۔
“تم نے سلسلہ توڑ دیا ہے،” وہ سرگوشی نما آواز میں بولا۔ “اب تمہیں قربانی مکمل کرنی ہوگی۔”
میری سانسیں رکنے لگیں۔ میرا دماغ تیزی سے گھومنے لگا—کون سا سلسلہ؟ کون سی قربانی؟ مگر اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتی، راشد نے میرے ہاتھ میں لنکر زبردستی تھما دیا۔ جوں ہی میں نے اسے چھوا، میرے پورے جسم میں جیسے آگ دوڑ گئی۔ ہر چیز دھندلی ہونے لگی، اور اچانک، میں کسی اور جگہ تھی۔
میں دربار میں کھڑی تھی، وہی دربار جہاں سے لنکر آتا تھا۔ مگر وہاں کوئی نہ تھا، سوائے ایک عورت کے جو سفید لباس میں لپٹی کھڑی تھی۔ اس کا چہرہ نقاب سے ڈھکا ہوا تھا۔
“تم کون ہو؟” میں نے کانپتی آواز میں پوچھا۔
“تم مجھے جانتی ہو،” اس نے کہا، اس کی آواز جانی پہچانی تھی۔ “تم نے نشانیاں نظر انداز کیں۔”
اچانک، میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی—یہ وہی آواز تھی جو کئی راتوں سے میرے خوابوں میں سرگوشیوں کی طرح گونج رہی تھی۔ عورت میرے قریب آئی، اس کا نقاب آہستہ آہستہ اٹھا، اور جو میں نے دیکھا، اس نے میرے ہوش اڑا دیے۔
وہ میں تھی۔
“یہ…یہ ممکن نہیں،” میں ہکلائی۔
“نہیں،” اس نے سر جھکا کر کہا۔ “میں وہ تھی جو تم بننے والی تھی… اگر تم نے غلط راستہ چنا ہوتا۔”
زمین ہلنے لگی، دربار دھند میں لپٹنے لگا۔ عورت کی آواز بیقرار ہو گئی۔ “یہ لے لو۔ اس لعنت کو ختم کرو۔ تم آخری ہو۔”
میرے ہاتھ میں ایک چھوٹا پیالہ نمودار ہوا۔ اس میں وہی لنکر تھا۔ میری دھڑکن تیز ہو گئی۔ کیا کھانے سے یہ سب ختم ہو جائے گا؟
میں نے حوصلہ جمع کیا اور لنکر کو لبوں تک لے گئی۔ جوں ہی پہلا نوالہ نگلا، سب کچھ ٹوٹنے لگا، جیسے کانچ بکھر رہا ہو۔ اچانک، میں واپس اپنے بستر پر تھی، پسینے میں شرابور، تیزی سے سانس لیتی ہوئی۔
میری آنکھیں کمرے میں دوڑیں۔ راشد وہاں نہیں تھا۔ لنکر کا پیکٹ میرے سرہانے ویسا ہی رکھا تھا، بغیر کھائے۔ میرے پیروں کا درد ختم ہو چکا تھا۔ وہ سرگوشیاں، وہ عجیب سایے، سب غائب تھے۔
یہ خواب تھا؟ یا حقیقت؟ میں نہیں جانتی۔ مگر ایک بات یقینی تھی—میں اب کبھی لنکر کو معمولی نہیں سمجھوں گی۔
اور راشد؟ اس نے بھی اس رات کے بارے میں کبھی بات نہیں کی۔ نہ میں نے۔
مگر کبھی کبھی، آدھی رات کو، جب ہر طرف سکون ہوتا ہے، میں اب بھی وہ سرگوشیاں سن سکتی ہوں۔ وہ مجھے یاد دلاتی ہیں کہ میں نے ایک بار نذرانے سے انکار کیا تھا… اور اپنی حقیقت کو تقریباً کھو دیا تھا۔