گلی کے کونے پر پرانی حویلی کے قریب ایک چھوٹا سا گھر تھا، جہاں نایاب اپنی ماں کے ساتھ رہتی تھی۔ نایاب خوبصورت، معصوم اور بے حد شرمیلی تھی۔ اس کا زیادہ تر وقت کتابوں میں گزرتا۔ محلے میں اس کی کم ہی لوگوں سے بات ہوتی، مگر انکل نعیم سے وہ ہمیشہ احترام سے پیش آتی تھی۔ نعیم انکل اس کے پڑوسی تھے، عمر میں کافی بڑے، مگر بہت خوش اخلاق اور مددگار۔ نایاب کے والد کے انتقال کے بعد انہوں نے کئی بار ان کی مالی مدد کی تھی۔
ایک دن جب نایاب کی ماں بیمار تھیں، نعیم انکل نے کہا، “بیٹی، اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلا جھجک بتانا، میں ہمیشہ تم لوگوں کے ساتھ ہوں۔” نایاب نے شکر گزاری کے ساتھ ان کا شکریہ ادا کیا۔
وقت گزرتا گیا، اور نعیم انکل کا گھر آنا جانا بڑھتا گیا۔ کبھی سبزی لا دیتے، کبھی دوائی۔ نایاب کی ماں بھی ان کے احسانات کے باعث ان کی بہت عزت کرتی تھیں۔ نایاب کے دل میں بھی ان کے لیے احترام تھا، کیونکہ انہوں نے ہمیشہ باپ کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی تھی۔
مگر کہانی میں موڑ اس دن آیا جب نایاب اکیلی گھر پر تھی۔ اس کی ماں ڈاکٹر کے پاس گئی تھیں، اور اچانک بارش شروع ہوگئی۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ نایاب نے دروازہ کھولا تو نعیم انکل کو بھیگتے ہوئے پایا۔
“بیٹی، بارش میں پھنس گیا تھا، سوچا جب تک رکتی ہے، یہیں رک جاتا ہوں۔”
نایاب نے احترام سے کہا، “جی انکل، آپ اندر آجائیں۔”
نعیم انکل اندر آئے اور کمرے میں بیٹھ گئے۔ نایاب نے انہیں چائے بنا کر دی۔ وہ ہمیشہ کی طرح مسکرا کر بولے، “تم بہت اچھی بچی ہو، بلکل اپنی ماں کی طرح خیال رکھنے والی۔”
نایاب نے شرماتے ہوئے کہا، “یہ تو میرا فرض ہے انکل۔”
مگر اس دن انکل نعیم کی نظریں عجیب سی تھیں۔ نایاب کو کچھ بےچینی سی محسوس ہوئی، مگر اس نے سوچا کہ شاید اس کا وہم ہے۔
چند لمحوں بعد، نعیم انکل نے کہا، “نایاب، تم بڑی خوبصورت ہوتی جا رہی ہو۔”
نایاب حیران ہو کر بولی، “جی؟”
نعیم انکل مسکرا کر بولے، “ہاں بیٹی، اب تو تم بڑی ہوگئی ہو، بلکل جوان لڑکی کی طرح۔”
نایاب نے شرم سے نظریں جھکا لیں اور بولی، “انکل، آپ بھی نا، مذاق کر رہے ہیں۔”
مگر پھر نعیم انکل کی آواز میں ایک عجیب سا انداز آیا، “نایاب، کبھی کبھی انسان کا دل چاہتا ہے کہ جوانی کو قریب سے محسوس کرے۔”
نایاب کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ اسے انکل نعیم کے الفاظ میں کچھ غلط لگا۔ اس نے کہا، “انکل، آپ کیا کہہ رہے ہیں؟”
نعیم انکل کی نظریں اب بالکل بدل چکی تھیں۔ انہوں نے آہستہ سے نایاب کا ہاتھ پکڑ کر کہا، “بیٹی، مت گھبراؤ، میں تو تمہیں بس پیار کرنا چاہتا ہوں۔”
نایاب کی آنکھوں میں خوف آگیا۔ اس نے جھٹکے سے ہاتھ چھڑایا اور پیچھے ہٹ کر بولی، “اف انکل جی، مت کریں!”
نعیم انکل کی مسکراہٹ میں شیطانیت آگئی، “ڈرنے کی ضرورت نہیں، میں تو ہمیشہ سے تم سے پیار کرتا تھا۔”
نایاب کے قدم کانپنے لگے۔ اس نے جلدی سے دروازے کی طرف بھاگنا چاہا، مگر نعیم انکل نے راستہ روک لیا۔
“کہاں جا رہی ہو؟ میں نے تمہارے باپ کی کمی کو پورا کیا ہے، اور اب تم مجھے یوں دھتکار رہی ہو؟”
نایاب نے چیخ کر کہا، “چھوڑیں مجھے، ورنہ میں شور مچا دوں گی!”
نعیم انکل غصے میں بولا، “کون یقین کرے گا تمہاری بات کا؟ سب مجھے عزت دیتے ہیں، اور تم پر کوئی یقین نہیں کرے گا۔”
نایاب کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ بے بس محسوس کر رہی تھی۔ اسی لمحے، دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔
“نایاب! دروازہ کھولو، میں تمہاری ماں ہوں!”
نعیم انکل کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔ نایاب نے جھٹ سے دروازہ کھولا اور ماں کو گلے لگا کر رونے لگی۔ اس کی ماں نے حیرت سے پوچھا، “کیا ہوا؟”
نایاب نے ہمت کر کے سب کچھ بتا دیا۔
نایاب کی ماں کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا۔ اس نے نعیم انکل کو غصے سے کہا، “شرم آنی چاہیے تمہیں! میں نے تمہیں بھائی مانا اور تم نے ہماری عزت کو پامال کرنے کی کوشش کی؟”
محلے والے بھی شور سن کر جمع ہوگئے۔ سب نے نعیم انکل کو برا بھلا کہا۔ ان کی اصلیت سب کے سامنے آگئی۔
نعیم انکل نے نظریں جھکا لیں اور خاموشی سے وہاں سے نکل گیا۔ اس دن کے بعد اس کا اس محلے میں کوئی نام لینے والا نہ رہا۔
نایاب نے ایک بڑا سبق سیکھا—عزت ہمیشہ دور سے کرنی چاہیے، کیونکہ ہر مسکراتا چہرہ دل کا صاف نہیں ہوتا