خری خط کا انوکھا راز
گاؤں کی فضا ہمیشہ سے پراسرار تھی، لیکن پچھلے کچھ دنوں میں ایک انجانی بے چینی ہر جگہ محسوس کی جا رہی تھی۔ رات ہوتے ہی لوگ دروازے بند کر لیتے، کھڑکیاں مقفل ہو جاتیں، اور سڑکیں ویران نظر آتیں۔ کسی کو کچھ پتہ نہ تھا کہ آخر مسئلہ کیا ہے، لیکن سب ہی محسوس کر رہے تھے کہ کچھ عجیب ہونے والا ہے۔
علی ایک تحقیقاتی صحافی تھا، جو سچائی کو کھوجنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔ اس بار اس کا سفر اسے ایک دور دراز گاؤں لے آیا تھا، جہاں لوگوں کے مطابق ایک خری خط ہر رات کسی نہ کسی دروازے پر نمودار ہوتا تھا۔ جس کو بھی یہ خط ملتا، وہ یا تو اگلے دن لاپتہ ہو جاتا یا پھر کسی شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر پاگل ہو جاتا۔
علی نے اس کہانی کو محض ایک دیہاتی افسانہ سمجھا، لیکن جب اس کے اپنے دروازے پر وہی خط نمودار ہوا، تو معاملہ سنجیدہ ہو گیا۔
خری خط کا پہلا پیغام
رات کا دوسرا پہر تھا، علی کسی کتاب کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ اچانک دروازے پر ایک آہستہ سی دستک سنائی دی۔ اس وقت کون ہو سکتا تھا؟ گاؤں کے لوگ تو سورج ڈھلتے ہی گھروں میں دبک جاتے تھے۔
علی نے دروازہ کھولا، باہر کوئی نہیں تھا، لیکن زمین پر ایک خری لفافہ رکھا تھا۔ لفافے کو ہاتھ میں لیتے ہی علی کو یوں لگا جیسے اس کی انگلیوں میں سنسنی سی دوڑ گئی ہو۔ لفافہ کھولنے پر اندر ایک کاغذ نکلا، جس پر صرف چند الفاظ لکھے تھے:
“اگر سچ جاننا چاہتے ہو، تو آدھی رات کو پرانے کنویں کے پاس آؤ!”
یہ ایک عام دعوت نہیں تھی، یہ چیلنج تھا، ایک امتحان!
علی نے خط کو غور سے دیکھا، مگر اس پر بھیجنے والے کا کوئی نشان موجود نہیں تھا۔ نہ کوئی پتہ، نہ کوئی نام، کچھ نہیں!
“یہ سب کیا ہے؟” علی نے خود سے سوال کیا۔
کنویں کا پراسرار راز
گاؤں کے لوگ پرانے کنویں کے قریب جانے سے گھبراتے تھے۔ مشہور تھا کہ وہاں کسی زمانے میں کسی کو زندہ دفن کیا گیا تھا، اور تب سے وہاں جانے والے اکثر لاپتہ ہو جاتے یا پاگل ہو کر لوٹتے۔ لیکن علی کہانیاں سننے نہیں، حقیقت تلاش کرنے آیا تھا۔
رات کے عین بارہ بجے، علی ہاتھ میں ٹارچ لیے کنویں کے قریب پہنچا۔ وہاں پہنچتے ہی اسے یوں لگا جیسے ہوا میں بوجھل پن آ گیا ہو، جیسے کوئی چیز اسے دیکھ رہی ہو۔
پھر اچانک۔۔۔ ایک سرسراہٹ سنائی دی!
علی نے ٹارچ کی روشنی آگے کی، وہاں زمین پر ایک اور خری لفافہ رکھا تھا۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے اٹھانے ہی والا تھا کہ اچانک پیچھے سے کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا!
علی کا دل زور سے دھڑکا، اس نے جھٹکے سے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔ مگر وہاں کوئی نہیں تھا!
خری خط کا دوسرا پیغام
علی نے تیزی سے لفافہ کھولا۔ اندر موجود خط پر انتہائی دھندلے الفاظ لکھے تھے، جیسے کسی نے جلد بازی میں انہیں لکھا ہو:
“یہاں رکنا مت، پیچھے مت دیکھنا، صرف آگے بڑھنا!”
علی کا جسم کپکپانے لگا۔ وہ پیچھے مڑنے ہی والا تھا کہ اچانک اسے محسوس ہوا جیسے کوئی چیز اس کے قدموں کے نیچے جنبش کر رہی ہو۔ اس نے نیچے نظر دوڑائی، تو زمین میں کوئی چیز دبی ہوئی نظر آئی!
بے ساختہ، علی نے ہاتھ سے مٹی ہٹانا شروع کر دی۔ کچھ ہی لمحوں میں، ایک بوسیدہ لکڑی کا باکس سامنے آ گیا۔ اس پر زنگ آلود تالہ لگا تھا، اور اس کے اوپر ایک مہر لگی ہوئی تھی، جس پر صرف ایک ہی علامت بنی تھی:
“خ”
علی نے جیسے ہی تالہ کھولا، ایک زوردار آندھی چلنے لگی، جیسے پوری فضا گرج رہی ہو۔ اچانک، علی نے کسی کی چیخ سنی! وہ پیچھے مڑنے ہی والا تھا کہ اچانک باکس کے اندر سے ایک دھند سی نکلنے لگی۔
یہ کیا تھا؟ کیا علی نے کوئی ممنوعہ راز کھول دیا تھا؟
سچائی کا انکشاف
اچانک، علی کو کسی نے دھکا دیا۔ وہ زمین پر گرا، اس کے سر پر چوٹ آئی اور سب کچھ دھندلا ہونے لگا۔ جب ہوش آیا، تو وہ کنویں کے قریب اکیلا پڑا تھا۔
لیکن اس کے ہاتھ میں ایک آخری خط تھا۔۔۔
اس پر لکھا تھا:
“تم نے وہ دیکھ لیا جو تمہیں نہیں دیکھنا چاہیے تھا۔ اب تم بھی اس راز کا حصہ ہو۔”
اس لمحے علی کو احساس ہوا کہ یہ صرف ایک خط نہیں تھا، بلکہ ایک لعنت تھی۔ جو بھی اس کے پیچھے جاتا، وہ خود بھی کہانی کا ایک کردار بن جاتا!
اختتام یا ایک نیا آغاز؟
اگلے دن، علی گاؤں چھوڑ چکا تھا، لیکن وہ خط۔۔۔ وہ آج بھی اس کے پاس تھا۔
کیا وہ اسے ہمیشہ کے لیے پھینک دے؟ یا کسی اور کو بھیج دے، جیسے کوئی اس سے پہلے کر چکا تھا؟
علی نے خری لفافہ دیکھا، اور ایک عجیب سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی۔۔۔
نتیجہ:
یہ کہانی ایک پراسرار، معمہ خیز، اور سنسنی خیز کہانی ہے جو قاری کو آخر تک جکڑ کر رکھتی ہے۔ “خری خط کا انوکھا راز” صرف ایک معمولی قصہ نہیں، بلکہ ایک ایسا راز ہے جو ہر قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اگر آپ کو بھی ایک خری خط ملے، تو کیا آپ اسے کھولیں گے؟ یا۔۔۔ اسے کسی اور کے دروازے پر رکھ دیں گے؟
یہ کہانی کیسی لگی؟ کیا آپ مزید اس کا سیکوئل چاہتے ہیں